میرا بچپن کراچی میں گزرا ہے جہاں لوگوں کو ہر قِسم کی اذیت سے گزرنہ پڑتا ہے، قیاس ہے کہ روزِ قیامت باشندگانِ کراچی خدا تعالٰی کو ایک خاص سرٹیفیکیٹ دیں گے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہو گا کہ اہلیانِ کراچی پہلی ہی دوزخ کے کئی عذابوں سے گزر چُکے ہیں ان میں سے ایک عذاب بھکاریوں کا ہے
کراچی میں عموماً دو قِسم کے بھکاری پائے جاتے ہیں، جو روز مانگنے کے لئے سڑک پہ آتے ہیں۔ صبح سے شام تک ان کا کام صرف مانگنا اور راہ گزرنے والوں کو تنگ کرنا ہوتا ہے۔
دونوں آپ کو آس پاس ہی ملتے ہیں فرق یہ ہے کہ ایک بھکاری سگنل پر ملتا ہے جو آپ سے الّٰلہ کے نام پہ مانگتا ہے اور اگر آپ اس کو کچھ نہ بھی دیں تو دعائیں دیتا چلا جاتا ہے لیکن دوسرا آپ کو سگنل کے بعد ملتا ہے جو آپ سے قانون کے نام پہ مانگتا ہے۔
اس کو نہ بولنے پہ مسئلہ ہو جاتا ہے کیوںکہ یہ آپ کو منٹوں میں احساس دلاتا ہے کہ آپ مجرم ہیں اور چند ہی لمحات میں آپ کا نام نامعلوم افراد کی فہرست میں شامل ہو جائے گا لہٰذا آپ کو شرافت سے اس کو منہ مانگی رقم ادا کر دینی چاہیے۔
اک عجیب سماء ہوتا ہے جب یہ بھکاری آپ کو روک کر کھڑا کرتا ہے اور آپ بس یہ دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ بس یہ بلا ٹل جائے۔ مگر اس بھکاری کو پیسے دیئے بغیر آپ نہیں جا سکتے۔ ہاں اگر آپ کسی حکومتی آفسر یا منسٹر کو جانتے ہیں تو آپ کو سو خون بھی معاف ہیں۔
عام آدمی چاہے وہ تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانے والا طالب ہو، محنت سے روزی کمانے والا یا کسی بھی دوسرے کام سے سڑک پہ نکلنے والا، بھکاریئوں کی اس قسم سے بچ کر نہیں جا سکتا
یہ حکومت سے پوری تنخواہ بھی لیتے ہیں، ٹریننگ بھی اور مانگ کہ جو اوپر والے افسران کو زیادہ حصہ دیتے ہیں وہ انعام واکرام اور پروموشن بھی حاصل کرتے ہیں۔
دونوں بھکاریوں کی عزت میں بھی فرق ہوتا ہوتا ہے۔ پہلے بھکاریوں کو کوئی دل میں اتنا برا نہیں سمجھتا جبکہ دوسرے بھکاریوں کو سب اچھے سے جانتے ہیں اور ان کے پیشہ ور خواتین کی طرح نازیبا نام رکھے جاتے ہیں۔
پہلےبھکاری اس کو بھوک کی وجہ سے شروع کرتے ہیں جبکہ دوسرے اپنے سے اوپر والوں کا پیٹ بھرنے کے لئے جو زندگی بھر بھرتا دکھائی نہیں دیتا۔
عجب عالم ہے کراچی کی عوام کا، نہ ان کے پاس کوئی اور راستہ ہے جہاں دونوں بھکاری نہ ہوں۔
وہ خوشی دیدنی ہوتی ہے جب کوئی شہری ان دونوں سے نچ نکلے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسے دوسری زندگی عطا کر دیگئی ہے۔
Good